اتوار 6 اپریل 2025 - 19:43
جنت البقیع اور عالم اسلام

حوزہ/ اگر کسی قوم و ملت کے آثار مٹ جائیں تو وہ مردہ تصور کی جاتی ہیں۔ دشمن اسلام ان آثار کو مٹا کر امت مسلمہ کو مردہ سمجھ رہا ہے، لیکن یہ اس کی بھول ہے۔ مسلمان زندہ ہیں اور اس وقت تک خاموش نہیں ہوں گے جب تک قبرستان کی تعمیر نہ ہو جائے۔

تحریر: مولانا سید رضی حیدر پھندیڑی

حوزہ نیوز ایجنسی | 21 /اپریل 1925 (8 شوال 1344 ہجری) کو سعودی فرمانروا عبدالعزیز بن سعود کے حکم پر جنت البقیع کے مزارات منہدم کردیے گئے۔ اس واقعے نے دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید تشویش اور افسوس کا احساس پیدا ہوا کیونکہ اس مقام پر متعدد اہم تاریخی اور مذہبی مقامات موجود ہیں۔
انہدام جنت البقیع کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں نے احتجاج کیا، جس کا مقصد اس مقام کی تاریخی حیثیت اور مذہبی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔ مظاہرین نے "جنت البقیع کی بحالی" کے مطالبات پیش کیے۔ یہ واقعہ نہ صرف ایک تاریخی ورثے کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ مسلمانوں کے جذبات کو بھی مجروح کرتا ہے۔ مسلمان آج بھی اس واقعے کی یاد تازہ رکھتے ہیں۔ پوری دنیا کے مسلمان ہر سال 8 شوال کو اس واقعے کی مذمت اور اس کی تعمیر نو کا مطالبہ کرتے ہیں۔
جنت البقیع کے مسمار ہونے سے عالم اسلام کے جذبات مجروح ہونے اور ان کے دلوں کو ٹھیس پہنچنا واضح ہے، کیونکہ یہ وہ قبرستان ہے جہاں تقریباً 10,000 صحابہ کرام مدفون ہیں، جن کا احترام تمام مسلمانوں کے دلوں میں حد درجہ ہے اور یہ احترام قیامت تک باقی رہے گا۔ اس بات کی تائید ام قیس بنت محصن کے بیان سے ہوتی ہے، وہ فرماتی ہیں: "ایک دفعہ میں پیغمبر (ص) کے ہمراہ بقیع پہنچی تو آپ (ص) نے فرمایا: اس قبرستان سے ستر ہزار افراد محشور ہوں گے جو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں جائیں گے، اور ان کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح دمک رہے ہوں گے" (سنن ابن ماجہ، ج 1، ص 493)۔
پس جنت البقیع میں ایسی بافضیلت اور عظیم شخصیات دفن ہیں جن کی عظمت و منزلت کو تمام مسلمان متفقہ طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ اسی قبرستان میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد، اہل بیت علیہم السلام، اُمّہات المومنین، جلیل القدر صحابہ، تابعین اور دوسرے اہم افراد جیسے عثمان بن عفان اور مذہب مالکی کے پیشوا امام ابو عبداللہ مالک بن انس (رحمت اللہ علیہ) موجود ہیں۔ حضرت فاطمہ (س) بنت رسول اکرم، امام حسن، امام زین العابدین، امام محمد باقر، امام صادق، اور دیگر اُمّہات المومنین (ازواج رسول اللہ (ص)) جیسے عائشہ بنت ابی بکر، ام سلمه، زینب بنت خزیمہ، اور جویریہ بنت حارث کی قبریں بھی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر اہم شخصیات جیسے حضرت ابراہیم (ع)، حضرت علی (ع) کی والدہ فاطمہ بنت اسد، آپ کی زوجہ اُمّ البنین، حلیمہ سعدیہ، حضرت عاتکہ بنت عبدالمطلب، عبداللہ بن جعفر، اور معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہم) کی قبریں بھی موجود ہیں۔
افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ جنت البقیع اسلامی تعلیمات کے نام پر مسمار کیا گئی۔ عالم اسلام بخوبی ان اسلامی تعلیمات سے واقف ہے اور اس غیر اسلامی حرکت کو کبھی برداشت نہیں کر سکتا، چنانچہ جب تک جنت البقیع بحال نہیں ہوتی، مسلمانوں کے دل مجروح رہیں گے اور وہ احتجاج کرتے رہیں گے۔
اگر آج اسلام ہم تک پہنچا ہے تو یہ جنت البقیع میں آرام کرنے والی شخصیات کی بدولت پہنچا ہے۔ اگر یہ افراد اسلام کی تعلیمات کو ہم تک پہنچانے کی کوشش نہ کرتے تو اسلام محض تاریخ کے دامن میں گم ہو جاتا اور نہ ہی مسلمان ہوتے۔چنانچہ مسلمان اپنے محسنین کے مزارات پر سایہ کے لئے احتجاج کرتے رہیں گے۔ یاد رکھیں، جو قومیں اپنے قومی اور مذہبی آثار کی تعظیم کرتی ہیں اور ان کا تحفظ کرتی ہیں، وہ ہی زندہ رہتی ہیں۔ اگر کسی قوم و ملت کے آثار مٹ جائیں تو وہ مردہ تصور کی جاتی ہیں۔ دشمن اسلام ان آثار کو مٹا کر امت مسلمہ کو مردہ سمجھ رہا ہے، لیکن یہ اس کی بھول ہے۔ مسلمان زندہ ہیں اور اس وقت تک خاموش نہیں ہوں گے جب تک قبرستان کی تعمیر نہ ہو جائے۔ ہم اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے اور سعودی عرب کی موجودہ حکومت سے قبرستان کی تعمیر نو کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔ رب کریم جلد از جلد ان بزرگان کی قبروں اور سائبان کی تعمیر فرمائے، اور ہمیں حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ والحمدللہ رب العالمین۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha

تبصرے

  • علی حسن IN 19:49 - 2025/04/06
    خدا بی بی کے مزار کی تعمیر فرمائے آمین
  • دانش علی IN 06:12 - 2025/04/07
    بہت معلوماتی مقالہ ہے جزاک اللّہ
  • اسلم رضوی IN 12:10 - 2025/04/07
    زندہ باد حوزہ نیوز اچھے قلم کاروں کے مقالات نشر کرتی ہے مولانا سید رضی زیدی اچھے قلم کار ہیں